حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد 27 جولائي سنہ 1979 کو قائم ہونے والی پہلی نماز جمعہ کی سالگرہ کے موقع پر پورے ملک کے ائمۂ جمعہ نے بدھ کی صبح امام خمینی امام بارگاہ میں رہبر انقلاب اسلامی آيۃ اللہ العظمی سید علی خامنہ ای سے ملاقات کی۔
اس ملاقات میں رہبر انقلاب اسلامی نے نماز جمعہ کو اسلامی نظام کی سافٹ پاور کی کڑیوں میں ایک انتہائي اہم کڑی اور غیر معمولی فریضہ قرار دیا اور کہا: امام جمعہ، اسلامی انقلاب کا ترجمان ہے اور اس کی ایک اہم ذمہ داری، انقلاب کی بنیادوں اور اہم مفاہیم کو بیان کرنا، عام فہم زبان میں شکوک و شبہات کا جواب دینا، انھیں دلیلوں کے ساتھ پیش کرنا اور سبھی کے ساتھ پدرانہ شفقت سے پیش آنا بتایا۔
انھوں نے اپنی تقریر کے آغاز میں اہلبیت علیہم السلام سے متعلق ایام کا تذکرہ کرتے ہوئے نماز جمعہ کی اہمیت پر روشنی ڈالی۔
آيۃ اللہ العظمی خامنہ ای نے مذہبی فرائض کے درمیان نماز جمعہ کے غیر معمولی مقام کی طرف اشارہ کیا اور کہا: "اللہ کی جانب توجہ اور عوامی شراکت اور اجتماع کے درمیان رشتہ"، "اجتماعی طور پر اللہ کا ذکر اور اجتماع پر اس کی برکتوں کا نزول"، "بلاناغہ ہر ہفتے نماز جمعہ کا جاری رہنا"، "فکری مسائل، سماجی خدمات، عمومی تعاون اور فوجی آمادگی و لام بندی جیسے معاشرے کے مختلف مسائل پیش کرنے کے ایک اہم مرکز" اور "سیاست سے روحانیت کا رشتہ" نماز جمعہ کی اہم ترین خصوصیات ہیں جنھوں نے اسے ایک زبردست اور غیر معمولی موقع میں تبدیل کر دیا ہے۔
انھوں نے امام جمعہ کی روش اور انداز کے بارے میں کہا: ائمۂ جمعہ جس طرح سے نماز جمعہ کے خطبوں میں سبھی کو تقوے کی سفارش کرتے ہیں، اسی طرح وہ خود بھی تقوی حاصل کرنے اور اس پر عمل کرنے کی بھرپور کوشش کریں کیونکہ اگر ایسا نہیں ہوا تو اس کا الٹا نتیجہ نکلے گا۔
رہبر انقلاب اسلامی نے سبھی کے ساتھ پدرانہ شفقت کو امام جمعہ کے سلوک اور روش کا ایک اور ضروری پہلو بتایا اور کہا: نماز جمعہ میں ہر طرح کے اور مختلف خیالات والے لوگ آتے ہیں، امام جمعہ کا رویہ اپنے بچوں کے ساتھ باپ کے رویے کی طرح ہونا چاہیے اور اسے سبھی کو روحانیت اور دین کے دسترخوان پر بٹھانا چاہیے۔
انھوں نے تہران میں دسیوں لاکھ لوگوں کی شرکت سے منعقد ہونے والے عید غدیر کے جشن اور اس میں مختلف طبقوں اور خیالوں کے لوگوں کی شرکت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے، اسے ایک حیرت انگیز پروگرام بتایا اور کہا: اس جشن میں ہر طرح کے لوگ شریک ہوئے اور سبھی اپنے ظاہری فرق کے باوجود دین کے طرفدار ہیں۔
آيۃ اللہ العظمی خامنہ ای نے اسی طرح ائمۂ جمعہ کو عوامی بننے یعنی عوام کے درمیان پہنچنے اور ان کے ساتھ گفتگو کرنے کی سفارش کی اور کہا: عوام کے درمیان پہنچنا اہم کام ہے، بنابریں عوام سے فاصلہ نہ بنائيے اور اپنے رابطے، ایک خاص گروہ تک محدود نہ رکھیے، البتہ ان برسوں کے دوران، ائمہ جعمہ کا نیٹ ورک، سب سے زیادہ عوامی انقلابی اداروں میں سے ایک رہا ہے۔
انھوں نے نماز جمعہ کے خطبوں کا ایک اہم مشن، بدخواہوں کی جانب سے مسلسل پیدا کیے جانے والے شکوک و شبہات کا مقابلہ کرنا بتایا اور کہا: آج جنگ کا میدان، سافٹ پاور کا میدان ہے اور دشمن اس میدان میں شکوک و شبہات پیدا کر کے عوام کے ایمان کے مضبوط قلعے میں دراڑ پیدا کرنے اور اسے ختم کرنے کے درپے ہے کیونکہ اسلامی انقلاب کی کامیابی اور مقدس دفاع کے دوران اور دوسرے فتنوں اور تمام میدانوں میں عوام کی استقامت کا اصل عنصر، عوام کا ایمان رہا ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی کے مطابق اسلامی جمہوریہ کا کارنامہ یہ رہا کہ اس نے مغربی تمدن کے تشخص کے مرکزی نقطے یعنی "مذہب و سیاست کی علیحدگي" کو غلط ثابت کیا۔ رہبر انقلاب اسلامی نے کہا: اسلامی جمہوریہ نے دین کے نعرے کے ساتھ نہ صرف اپنا تحفظ کیا بلکہ ایران کی ترقی و پیشرفت کے ساتھ، مذہب و سیاست کو ندی کے دو کنارے بتانے کی مغرب کی طویل کوششوں کو چیلنج کر دیا بنابریں مغربی طاقتوں کا مافیا، جس میں سب سے اوپر صیہونی اور ان کے سرمایہ دار ہیں اور امریکا ان کا شوکیس ہے، اس درخشاں حقیقت سے تلملایا ہوا ہے اور مسلسل اسلامی جمہوریہ کو نقصان پہنچانے کی سازش میں مصروف ہے۔
آيۃ اللہ العظمی خامنہ ای نے اپنی تقریر میں اسی طرح عورت اور حجاب کے بارے میں حالیہ دنوں سامنے آنے والے مسائل کی طرف اشارہ کیا اور کہا: اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد سے ہی یہ مسائل مسلسل سامنے آتے رہے ہیں اور حالیہ دنوں میں حجاب کے بہانے ایک بار پھر، ان ہی ناکام کوششوں کو دوہرایا جا رہا ہے۔
انھوں نے کہا: کچھ سال پہلے ایک نشست میں مجھ سے پوچھا گيا کہ عورت کے سلسلے میں مغرب کے مقابلے میں آپ کے پاس کیا دفاع ہے تو میں نے کہا تھا: "ہم دفاعی نہیں اقدامی اور حملے کی پوزیشن میں ہیں۔ جن لوگوں نے عورت کو ایک سامان بنا کر رکھ دیا ہے، انھیں دفاع کرنا اور جواب دینا چاہیے۔"
رہبر انقلاب اسلامی نے یہ سوال اٹھایا کہ کیوں اچانک ہی اور ایک بار پھر امریکا، برطانیہ اور ان کے پٹھوؤں کے سرکاری ذرائع ابلاغ نے حجاب کے بہانے عورت کے موضوع پر حملے شروع کر دیے ہیں؟ کیا واقعی مغرب والے ایرانی عورت کے حقوق کے حامی ہیں؟
رہبر انقلاب اسلامی نے کہا: مغرب والے وہی ہیں کہ اگر ان کے بس میں ہوتا تو ایرانی قوم پر پانی بند کر دیتے، جیسا کہ انھوں نے حال ہی میں خطرناک بیماری ای بی میں مبتلا بچوں کی دواؤں پر پابندی لگا رکھی ہے اور ان بچوں تک دوا نہیں پہنچنے دے رہے ہیں، تو کیا واقعی مغرب والے ایرانی عورت کے ہمدرد ہیں؟
رہبر انقلاب اسلامی نے کہا: اصل بات یہ ہے کہ باعزت و باصلاحیت ایرانی خاتون نے، مغربی تمدن کے دعووں اور جھوٹی باتوں پر ایک زبردست اور بڑی کاری ضرب لگائی ہے اور وہ لوگ اس سے سخت طیش میں ہیں۔
انھوں نے کہا کہ ایران کی مسلمان خاتون کی کامیابیوں نے مغرب والوں کی دو تین سو برسوں کی کوششوں پر پانی پھیر دیا ہے اور اسی وجہ سے وہ، ایرانی خاتون سے بری طرح تلملائے ہوئے ہیں اور حجاب کے بہانے سے، شبہات پھیلا رہے ہیں اور غلط ماحول بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
اس ملاقات کے آغاز میں، ائمۂ جمعہ کی پالیسی ساز کونسل کے سربراہ حجۃ الاسلام و المسلمین الحاج علی اکبری نے، پورے ملک میں نو سو مقامات پر نماز جمعہ کے انعقاد کی طرف اشارہ کرتے ہوئے نماز جمعہ کے انعقاد کی کیفیت کو بہتر سے بہتر بنانے کے لیے کیے جانے والے اقدامات اور پروگراموں کے بارے میں ایک رپورٹ پیش کی۔